Hire Me For Your Work

Saturday, 29 September 2012

عطائے رسول، سلطان الہند غریب نواز حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے حالات و کرامات

 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ذی الحجہ کا مہینہ تھا پانچ سو تراسی سن ہجری اور گیارہ سو ستاسی عسیوی تھی، مکۃ المکرمہ کی سر زمین پر میدان محشر کا سا سماں تھا، چہار دانگ عالم سے فرزندان توحید اپنے معبود حقیقی کے اس فرمان “واتموا الحج والعمرۃ للہ، کی تعمیل کیلئے سر نیاز خم کئے سیل رواں کی طرح جوق در جوق جمع ہو گئے تھے ایک ہی ترانہ جو ہر زبان پہ جاری تھا ایک ہی آواز جس سے مکۃ المکرمہ کی فضا گونج رہی تھی وہ مقدس ترانہ یہ تھا، “لبیک اللھم لبیک لاشریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لاشریک لک“ خالق کائنات جل جلالہ کے یہ وفا شعار بندے دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہر کر مناسک حج کی ادائیگی میں مصروف تھے لیکن ایک خلش جو دلوں کو بے چین کر رہی تھی وہ تھی روضۃ الرسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی حاضری کیونکہ ہادی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے در اقدس ہی تو اصل مراد اور قبولیت کا پروانہ ہے جیسا کہ سیدی اعلٰی حضرت رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں
 اس کے طفیل حج بھی خدا نے کرا دئیے
 اصل مراد حاضری اس پاک در کی ہے
 بشارت :۔
 آخر وہ لمحہ جانفزا آ ہی گیا جب حجاج فرائض حج سے فراغ ہو کر اپنا مال و متاع اونٹوں پر لاد کر دیوانہ وار عشق و مستی میں سرشار جانب طیبہ قافلہ در قافلہ کوچ کرنے لگے اور اپنے غمخوار آقا کی بارگاہ میں عقیدت و محبت کے نذرانے پیش کرنے لگے انہی میں ایک خوب رو، خوش قامت، عاشق رسول تھا جس کی عمر تاریخ میں اس وقت چھیالیس سال بتائی جا رہی ہے اور حالت یہ تھی برہنہ سر، آنکھیں نم اور کثرت سفر کی وجہ سے پاؤں میں چھالے ہیں لیکن صورت بتا رہی تھی یہ کوئی اللہ والے ہیں۔ اپنے محسن آقا کی بارگاہ میں ہر کوئی اپنا درد دل بیان کر رہا تھا لیکن محبوب رب العالمین کا یہ عاشق ان سب سے بے نیاز ہو کر اپنے معبود حقیقی کی عبادت و ریاضت میں مشغول تھا اچانک گنبد خضرٰی سے آواز آئی۔ اے معین الدین تو میرے دین کا معین ہے میں نے تجھے ہندوستان کی ولایت عطا کی وہاں کفر و ظلمت پھیلی ہوئی ہے تو اجمیر جا تیرے وجود سے ظلمت کفر دور ہو گی اور اسلام رونق پذیر ہوگا۔“ ہر دل مخمور اور ہر چہرہ مسرور تھا اگر کسی چہرے پر پریشانی کی لکیر اور تکفرات کی سلوٹیں نمایاں تھیں تو وہ اسی عاشق رسول کا چہرہ تھا کیونکہ سلوک و معرفت کا یہ محبتوں بھرا تحفہ اسی کو عطا کیا گیا تھا۔ یہ مژدہ دلنواز اسی کو سنایا گیا تھا۔ آخر خوشخبری پہ خیران کیوں ؟ جب یہ سوال تاریخ کے ورق الٹنے والے مؤرخوں سے کیا گیا تو جواب ملا اس وجہ سے کہ وہ انجان تھا اس ملک سے۔ جس کا مژدہ سنایا گیا تھا۔ اسے معلوم نہ تھا کہ شہر اجمیر کہاں ہے ؟ سمت سفر کیا ہو گی ؟ مدینہ سے مسافت کتنی ہے ؟ راستہ کے پیچ و خم کیا ہیں ؟ ابھی وہ انہی فکروں میں گم تھا کہ گنبد خضرٰی کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں نے اس پر غنودگی طاری کر دی خواب میں محبوب کائنات صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ اپنے جمال جہاں آراء کے دیدار سے مشرف فرمایا اور ایک نظر میں مشرق سے مغرب تک سارے عالم کو دکھا دیا۔ تمام بلا و امصار نگاہوں کے سامنے تھے شہر اجمیر وہاں کا قلعہ اور پہاڑیاں نظر آنے لگیں۔ سرکار نے اپنے اس عاشق صادق کو ایک جنتی انار عطا فرما کر ارشاد فرمایا ہم تم کو خدا کے سپرد کرتے ہیں آنکھیں کھولیں تو ہندوستان کا پورا نقشہ پیش نظر تھا۔ چنانچہ تعمیل آقا کے لئے چالیس اولیاء کے ساتھ ہندوستان کا رُخ کیا۔
 سفر ہند :۔
 مدینہ منورہ سے وہ عاشق صادق بغداد پہنچا جہاں کچھ دنوں مشائخین وقت سے صحبتیں رہیں پھر 586ھ / 1190ء کو بقصد اجمیر بغداد سے عازم سفر ہوا۔ دوران سفر چشت، خرقان، جہنہ، کرمان، استرآباد، بخارا، تبریز، اصفہان، ہرات، سبزہ وار ہوتا ہوا بلخ پہنچا جہاں کچھ ایام شیخ احمد خضریرہ کے یہاں قیام کیا۔ پھر بلخ سے روانہ ہو کر سمر قند ہوتا ہوتا غزنین پہنچا یہاں شمس العارفین عبدالواحد ‌ سے ملاقات کی اور کچھ دنوں روحانی صحبت گرم رہی پھر اپنے روحانی قافلہ کے ساتھ لاہور پہنچا حضرت ابوالحسن علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش علیہ الرحمہ کے مزار اقدس پر حاضری دی اور روحانی فیوض سے مالا مال ہوا جب روانہ ہونے لگا تو مزار مبارک پر یہ شعر پڑھا
 گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں را پیر کامل، کاملاں را رہنما

دہلی میں آمد :۔
لاہور سے سمانا ہوتا ہوا ہندوستان کی راجدھانی دہلی پہنچ کر راجہ کھانڈے راؤ کے راج محل کے سامنے ایک بت کدہ کے پاس قیام کیا اور اپنے اعلٰی اخلاق و کردار، سادہ مؤثر نصیحتوں سے راج کھانڈے راؤ کے کاریگروں اور بہت سے راجپوتوں کو کلمہ اسلام پڑھنے پر مجبور کر دیا۔ لوگ جوق در جوق آنے لگے اور اسلام کا نور پھیلنے لگا، دیکھتے ہی دیکھتے دہلی کی سر زمین پر مسلمانوں کا ایک وسیع حلقہ تیار ہو گیا چونکہ اس مرد مجاہد کی منزل مقصود اجمیر تھی اس لئے اپنے خلیفہ حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو دہلی میں خلق خدا کی ہدایت کے لئے چھوڑ کر عازم اجمیر ہو گیا۔
 اجمیر میں آمد :۔
 چند ثقہ مؤرخوں کے مطابق وہ مرد مجاہد 587ھ / 1191ء کو وارد اجمیر ہوا جہاں روز اول ہی سے باطن شکن کرامتوں کے ظہور نے ایک بوریہ نشیں درویش کی روحانی عظمت و قوت کا سکہ اہل اجمیر کے دلوں پر بٹھا دیا۔ اجمیر کے عوام و خواص کی کثیر تعداد شرک و بت پرستی کے قعر عمیق سے نکال کر فرمان باری تعالٰی ورایت الناس یدخلون فی دین اللہ افواجا کی ڈور سے منسلک ہونے لگی اور ایک وقت وہ آیا کہ شہر اجمیر کی پوری فضا کلمہ توحید سے گونجنے لگی۔ قبل ازیں کہ اس مرد خدا کی کچھ کرامتیں سپرد قرطاس کی جائیں نام و نسب اور ولادت و بچپن کا بیان بھی ضروری ہے۔
نام و نسب اور والدین :۔
تاریخ میں اس عظیم مرد مجاہد کا نام معین الدین بتایا جاتا ہے۔ جنہیں والدین پیار سے حسن کہا کرتے تھے اور غریب پروری کی وجہ سے غریب نواز کے نام سے مشہور ہوئے۔ پدر بزرگوار کا نام خواجہ غیاث الدین حسن ہے جو زہد و ورع، تقوٰی و طہارت میں ممتاز اور علم ظاہر و باطن سے بھی آراستہ تھے۔ یہ آٹھویں پشت میں حضرت موسٰی کاظم کے پوتے ہوتے ہیں۔ آپ کا شجرہ نسب ہوں ہے:
سید معین الدین حسن بن غیاث الدین بن سید سراج الدین بن سید عبد اللہ بن سید عبد الکریم بن سید عبد الرحمن بن سید علی اکبر بن سید ابراھیم بن امام موسی کاظم بن امام جعفر الصادق بن امام محمد باقر بن امام زین العابدین بن حضرت امام حسین بن حضرت علی المرتضی رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین
 

اور مادر مہربان کا نام بی بی ام الورع ہے جو بی بی ماہ نور سے مشہور تھیں یہ بھی بلند کردار، پاکیزہ باطن خاتون تھیں، عبادت و ریاضت آپ کا محبوب مشغل تھا۔ چند واسطوں سے یہ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ کی پوتی تھیں۔ اس لئے حضرت خواجہ کی نجیب الطرفین سید کہا جاتا ہے۔ حضرت خواجہ حضرت غوث اعظم کے خالہ زاد بھائی ہیں۔ اور ایک روایت کے مطابق آپ غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ایک رشتے سے ماموں زاد ہوتے ہیں۔
ولادت، بچپن اور تعلیم :۔
حضرت خواجہ کی ولادت با سعادت 537ھ 1142ء کو موضع سنجر علاقہ سبحستان (جسے سبستان بھی کہا جاتا ہے) میں ہوئی۔ آپ نے متقی و پارسا والدین کی آغوش تربیت میں پرورش پائی تھی اس لئے عام بچوں کی طرح آشنائے لہوو لعب نہ تھے۔ پیشانی مبارک پر لمعہ نور اور شائستہ اطوار اس امر کی غمازی کرتے تھے کہ آپ آگے چل کر غیر معمولی شخصیت اور فکر و عمل، صلاح و تقوٰی کا روشن مینار ہوں گے۔ ابتدائی تعلیم والد گرامی کے زیر سایہ ہوئی۔ نو برس کی عمر میں قرآن پاک حفظ کر لیا پھر ایک مدرسہ میں داخل ہو کر تفسیر و حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کی اور بہت قلیل مدت میں کثیر علم حاصل کر لیا۔

انقلاب اور تلاش حق :۔
جب عمر شریف پندرہ سال کی ہوئی تو والد کا سایہ شفقت سر سے اٹھ گیا ترکہ پدری سے ایک باغ اور ایک پن چکی ملی تھی جس کو آپ نے ذریعہ معاش بنایا اور خوشگوار زندگی گزرنے لگی مگر قدرت نے آپ کو اپنی مخلوق کے دلوں کی باغبانی کے لئے پیدا فرمایا تھا۔ چنانچہ ایک دن ایک مجذوب حضرت ابراہیم قندوزی باغ میں تشریف لائے اور ایک کھلی کا ٹکڑا کھلا کر دل کی دنیا میں انقلاب پیدا کر دیا۔ فوراً حضرت خواجہ نے باغ اور پن چکی بیچ کر اس کی قیمت فقراء میں تقسیم کردی اور تلاش حق میں نکل پڑے۔ کئی مقامات سے گزرتے ہوئے قریہ ہارون پہنچے جہاں حضرت خواجہ عثمان ہارونی نے آپ کو اپنے حلقہ اردات میں داخل فرما کر اپنی دو انگلیوں کے درمیان سے اوپر عرش اعظم اور نیچے تحت الثرٰی تک دکھا دیا۔ بیس سال تک اپنے مُرشد کی خدمت کرتے رہے یہاں تک کہ ایک دن پیرو مُرشد نے آپ کو ساتھ لیکر خانہ کعبہ کا سفر کیا۔ طواف و زیارت کے بعد ہاتھ پکڑ کر حق تعالٰی کے سپرد کردیا۔ جب زیر حطیم کعبہ مناجات کی تو ندا آئی “ہم نے معین الدین کو قبول کیا“ بعد ازاں بارگاہ آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہو کر بحکم مُرشد حضرت خواجہ نے سلام عرض کیا تو روضہ انور سے اس طرح جواب ملا “وعلیکم السلام یاقطب المشائخ بروبحر“ یہ تو مُرشد برحق کے ساتھ کا واقعہ ہے لیکن جب دوسری مرتبہ اپنے مُرید خاص حضرت قطب الدین بختیار کاکی کو ساتھ لیکر حج و زیارت کے لئے تشریف لے گئے تو ایک دن کا واقعہ ہے کہ آپ حرم کعبہ کے اندر یادِ الٰہی میں مشغول تھے کہ ہاتف کی آواز سنی “اے معین الدین ہم تجھ سے خوش ہیں، تجھے بخش دیا، جو کچھ چاہے مانگ تاکہ عطا کروں“ اور جب روضہ انور کی زیارت کیلئے پہنچے تو یہ خوشخبری سنی “اے معین الدین تو میرے دین کا معین ہے ہندوستان کی ولایت میں نے تجھے عطا کی“ یہی وہ بشارت عظمٰی ہے جس سے میں نے اپنے مقالہ کا آغاز کیا تھا، اب لگے ہاتھوں حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی چند بصیرت افروز کرامتیں بھی ملاحظہ فرمائیں۔
کرامات خواجہ ہندالولی :۔
دوران قیامِ بغداد ایک دن خواجہ غریب نواز رضی اللہ تعالٰی عنہ شیخ وحدالدین، شیخ شہاب الدین سہروردی اور خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رضی اللہ تعالٰی عنہم کی ایک مجلس میں تھے۔ انبیاء علیہم السلام کا ذکر خیر ہو رہا تھا کہ سامنے سے ایک بارہ سال کا لڑکا ہاتھ میں ایک پیالہ لئے جا رہا تھا (دوسری کتابوں میں تیرو کمان کا ذکر ہے) جب بزرگوں کی نگاہیں اس پہ پڑی تو حضرت خواجہ نے فرمایا، یہ لڑکا ایک دن دہلی کا بادشاہ بنے گا۔ چنانچہ یہی وہ لڑکا شمس الدین التمش کے نام سے دہلی کا بادشاہ گزرا ہے۔
زیارتِ کعبہ :۔
حضرت قطب الدین بختیار کاکی کا بیان ہے کہ حضرت خواجہ ہر سال زیارتِ کعبہ کے لئے بقوت روحانی اجمیر سے تشریف لے جاتے تھے جب کام پایہ تکمیل کو پہنچا تو آپ کا یہ معمول تھا کہ آپ ہر شب بعد نمازِ عشاء کعبۃ اللہ شریف تشریف لے جایا کرتے تھے اور نمازِ فجر اجمیر میں ادا فرماتے تھے۔
رھزنوں کا تائب ہونا:۔
ایک مرتبہ حضرت خواجہ اپنے مُریدوں کے ساتھ ایک گھنے جنگل سے گزر رہے تھے کہ وہاں بسنے والے ڈاکوؤں نے آپ کے مُریدوں پر حملہ کر دیا اور لوٹ مار شروع کر دی۔ یہ دیکھ کر حضرت خواجہ نے جب نگاہِ جمال ان ڈاکوؤں پر ڈالی تو وہ کانپنے لگے اور قدموں میں گر پڑے۔ چھینا ہوا سامان واپس کیا اور آپ کے دستِ حق پرست پر سب کے سب مشرف باسلام ہوئے۔ بعد ازاں آپ نے ان کو چند نصیحتیں فرمائیں۔ جو نہایت گارکر ثابت ہوئیں۔ سب نے رہزنی سے توبہ کی اور پوری عُمر دین حق پر کاربند رہے اور سچائی کا دامن کبھی بھی اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔
مقتول زندہ ہو گیا :۔
حاکم وقت نے ایک بے قصور شخص کو پھانسی دی اس کی ماں روتی پیٹتی ہوئی خدمتِ خواجہ میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ میرا بیٹا بے قصور تھا حضور مجھ پر کرم فرمائیں۔ آپ عصا لیکر اس کے ساتھ روانہ ہو گئے۔ مقتول کے پاس پہنچ کر عصا سے اس کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا اگر تو بے نگاہ قتل کیا گیا ہے تو خدا کے حکم سے زندہ ہوجا اور دار سے نیچے اتر آ۔ مقتول یہ سنتے ہی زندہ ہو گیا اور سولی سے اتر کر آپ کے قدموں پر سر رکھا اور اپنی ماں کے ساتھ اپنے گھر کو روانہ ہو گیا۔
بُت پرستوں کا تائب ہونا :۔
کلمات الصادقین میں لکھا ہے کہ ایک دن حضرت خواجہ کا گزر کفار کے ایک بُت کدے کی طرف سے ہوا۔ اس وقت سات کافر بُت پرستی میں مشغول تھے آپ کا جمال جہاں آراء دیکھتے ہی بے بس ہو گئے اور قدموں میں آ کر گر گئے فوراً توبہ کی اور مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ آپ نے ان میں سے ایک کا نام حمیدالدین رکھ دیا۔ چنانچہ شیخ حمید الدین دہلوی ان سات حضرات میں سے ایک ہیں جنہوں نے شہرت پائی۔

آتش پرستوں کا قبولِ اسلام :۔
 ایک روز حضرت خواجہ غریب نواز صحرا سے گزرے وہاں آتش پرستوں کا ایک گروہ آگ کی پرستش میں مشغول تھا یہ لوگ اس قدت ریاضت و مجاہدات کرتے تھے کہ چھ چھ مہینے تک دانہ پانی زبان پر نہیں رکھتے تھے سرکار خواجہ نے ان لوگوں سے آتش پرستی کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ آگ کو اس لئے پُوجتے ہیں کہ دوزخ میں یہ آگ ہمیں تکلیف نہ پہنچائے۔ آپ نے فرمایا دوزخ سے بچنے کا طریقہ یہ نہیں بلکہ نارِ دوزخ سے بچنے کیلئے خالق نار کی پُوجا کرو پھر یہ آگ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی۔ تم لوگ اتنے دنوں سے آگ کی پوجا کرتے ہو ذرا اس میں اپنا ہاتھ ڈال کر دکھاؤ ؟ ان لوگوں نے جواب دیا۔ آگ کا کام جلانے کا ہے، ہمارا ہاتھ تو جل جائے گا لیکن اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ حق پرستوں کو آگ نہ جلائے گی۔ حضرت خواجہ نے فرمایا، دیکھو ہم خدا کے پرستار ہیں۔ یہ آگ ہمارے جسم کو تو دور کی بات ہماری جوتی کو بھی نہیں جلا سکتی۔ یہ فرما کر آپ نے اپنی ایک جوتی آگ میں ڈال دی بہت دیر تک وہ آگ میں رہی مگر اس پر آگ کا ذرا سا بھی اثر نہ ہوا یہ دیکھ کر سب مسلمان ہو گئے۔
فریاد رسی :۔
 ایک دن کا واقعہ ہے کہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سلطان شمس الدین التمش کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے مصروف سیر و تفریح تھے بعض امراء و اعیان سلطنت بھی ہمراہ تھے کہ ایک بدکار عورت نے بادشاہ کے حضور میں عرض کیا کہ آپ میرا نکاح کر دیں ورنہ عتابِ الٰہی میں گرفتار ہو جاؤنگی بادشاہ نے کہا تو کس کے ساتھ نکاح کرنا چاہتی ہے تو عورت نے حضرت قطب الدین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اس مرد سے جو قطب الاقطان بنے پھرتے ہیں (نعوذاللہ) انہوں نے میرے ساتھ حرام کی ہے اور یہ حمل (پیٹ کی طرف اشارہ کرکے) انہیں کا ہے۔ حضرت قطب صاحب کو یہ بیہودہ بات سن کر شرم و ندامت سے پسینہ آ گیا۔ بادشاہ و امراء ششدر رہ گئے۔ فوراً قطب صاحب نے اجمیر کی طرف منہ کرکے کہا “یا پیرو مُرشد میری مدد فرمائیے“ فوراً سامنے حضرت خواجہ تشریف لاتے دکھائی دئیے حضرت قطب صاحب اور بادشاہ قدم بوس ہو گئے۔ سرکار خواجہ نے فرمایا کیا بات ہے ؟ تم نے مجھے کیوں یاد فرمایا ؟ حضرت قطب صاحب نے سارا ماجرا بیان کیا تو سرکار خواجہ نے اس عورت کے پیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا اے بچے سچ سچ بتا تو کس کا بچہ ہے۔ بچہ فوراً اپنی ماں کے پیٹ سے بول اٹھا کہ میں ایک چرواہے کا بچہ ہوں۔ میری ماں نہایت بدکار عورت ہے۔ چنانچہ عورت نے بھی اعتراف کرکے معافی مانگی۔
پرتھوی راج اور حضرت خواجہ :۔
جب حضرت خواجہ اجمیر میں مقیم ہوئے اور وہاں آپ کی ذات بابرکت سے کرامتوں کا مسلسل ظہور ہونے لگا اور لوگ اسلام کی صداقت کے معترف ہونے لگے پرتھوی راج کی دفاعی کوششوں کے باوجود حضرت خواجہ کا اثر بڑھنے لگا تو پرتھوی راج دل سے حضرت خواجہ کا دشمن ہوگیا، جوگی جے پال کی ناکامی اور اس کے قبول اسلام کے بعد پرتھوی راج کی آتش عداوت تیز ہوگئی اور وہ حضرت خواجہ کو اجمیر سے نکالنے کا منصوبہ بنانے لگا جب وہ اپنے منصونے کو عملی شکل دینے کا ارداہ کرتا اندھا ہو جاتا اور جب باز آتا بینائی واپس آ جاتی اس کرامت کو بار بار دیکھنے کے باوجود بھی شرک و بُت پرستی کی ظلمت اس کے دل سے نہ نکل سکی بالآخر اپنے کیفر کردار کو پہنچا۔
مجلس کرامات :۔
حضرت خواجہ ایک مجلس کا تذکرہ فرماتے ہیں جس میں خواجہ عثمان ہارونی خواجہ اوحدالدین کرمانی اور حضرت خواجہ بھی موجود تھے۔ گفتگو اس بارے میں شروع ہوئی کہ جو شخص بھی اس مجلس میں ہے وہ اپنی کرامت دکھائے یہ سنتے ہی خواجہ عثمان ہارونی نے مصلے کے نیچے ہاتھ ڈالا اور مٹھی بھر اشرفیاں نکال کر ایک درویش کے حوالہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جاؤ درویشوں کے لئے حلوہ لے آؤ۔ شیخ اوحدالدین نے قریب ہی پڑی ہوئی ایک لکڑی پر ہاتھ مارا تو فوراً وہ لکڑی سونا بن گئی۔ میں پیچھے رہ گیا جو پیر و مُرشد کی وجہ سے کوئی کرامت ظاہر نہیں کر سکتا تھا شیخ نے میری طرف رُخ کرکے فرمایا تم کوئی کرامت کیوں نہیں دکھاتے ؟ اس مجلس میں ایک بھوکا درویش تھا جو شرم کی وجہ سے سوال نہیں کرتا تھا میں نے اپنی گدڑی میں سے جوکی چار روٹیاں نکالیں اور اس درویش کے حوالہ کر دیں۔
 رام دیو کا قبول اسلام :۔
جب حضرت خواجہ اجمیر میں اناساگر کے قریب مقیم ہوئے وہ انا ساگر جس کے گرد و نواح میں ہزاروں بُت خانے تھے جن پر سینکڑوں من تیل اور پھول صرف ہوتے صُبح و شام تک پرستاروں کا ہجوم رہا کرتا تھا۔ برہمنوں اور پرستارا صنام کو حضرت کا قیام ناگوار گزرا جب راجہ اور اہل شہر کی کثیر تعداد مندروں میں پُوجا کیلئے حاضر ہوئی پجاریوں کا سردار رام دیو (دوسری کتابوں میں شادی دیو آیا ہے) ایک جماعت کثیر کے ساتھ حضرت کی بارگاہ میں آیا تاکہ اس مرد درویش کو یہاں سے نکال دیا جائے لیکن حضرت خواجہ کے جمال باکمال پر نظر پڑتے ہی لوگوں کے جسموں پر لرزہ طاری ہو گیا۔ بید کی طرح کانپنے لگے۔ حضرت کی نگاہِ کرم کی تاثیر نے رام دیو کے دل کی کیفیت بدل دی بصد خلوص و عقیدت آگے بڑھا اور دستِ حق پرست پر اسلام قبول کرلیا۔ حضرت خواجہ نے اس کا نام شادی دیو رکھا۔ تلک عشرۃ کاملۃ یہ آپ کی دس کرامتیں مکمل ہوئیں ویسے تو آپ کی بے شمار کرامتیں ہیں اور الحمدللہ !! آج بھی آپ کی تربیت گہوارہء کرامت بنی ہوئی ہے۔
خدا کی رحمتیں ہوں اے امیر کارواں تم پر

Hadrat Khwaja Gharib Nawaz Chishti Ajmeri Alaihir raHmat al-Mannan


..:: Golden Words of Wisdom ::..
by Hadrat Khwaja Gharib Nawaz
Chishti Ajmeri Alaihir raHmat al-Mannan
 
  1. To look lovingly towards your parents is also a reason to gain the pleasure of your creator.
  2. An 'Aarif (order of saints) picks one foot and lands on the Arsh (throne of Allah SubHanuhu wa Ta'ala) and with the other comes back again.
  3. There is only one thing present in the entire universe and that is the noor (light) of Allah SubHanuhu wa Ta'ala every thing else is absent.
  4. There is only one veil standing between man and his creator and it is called nafs (soul).
  5. Do not be disillusioned by the enormity of the universe.
  6. The distinctions between the Haram and a Monastery are superficial.
  7. If love is not an automatic guide then one will never reach ones destination.
  8. Allah SubHanuhu wa Ta'ala is an all incorporating goodness and his divine decree is goodness for us.
  9. Hoarding of wealth and food for profit has become a destructive disease in the body of the nation. To fight and eradicate this disease lies within each citizen.
  10. No nation can ever achieve progress until the men and the women do not go ahead shoulder to shoulder.
  11. Belief in the law, unity and discipline and its principles should be adopted you will become. Trustworthy in this World.
  12. Organise your nation according to the economics, political, education and important laws and conditions. Then you will definitely see, you would become such a nation that everybody will accept you and respect you.
  13. Freedom does not mean to be unbridled not does it mean you can do as you please or choose as you wish or say as you will, for freedom is a great responsibility which should be used with great care and intelligence.
  14. O! Young people, if you are going to use your strength and power in unnecessary pursuits then at a later stage you are going to reject it.
  15. The waters of the streams and rivers when flowing make a lot of noise but when it meets with the sea then there is no more noise. One must ponder over the different stages of it’s behaviour.
  16. If a person has these 3 qualities then he is Allah’s wali (friend):

     
    • He is generous like the sea, every creation is blessed alike with his favours.
    • He is affectionate like the sun whose light is everyone?
    • He is hospitable like the earth, which is hospitable in exactly the same way towards all. So much of damage caused by sin has never been seen, as much as the damage caused by a brother being disrespectful and despicable towards another brother

Hazrat Syed Shah Abdul Latif Bhittai


Hadrat Sayyid Shah Abd al-Latif Bhittai
Alaihir raHmah wa ar-Ridwan
 
Shah Abdul Latif Bhittai (1689–1752) (Sindhi: شاھ عبدالطيف ڀٽائيِ, Urdu: شاہ عبداللطیف بھٹائی) was a Sufi scholar, and is considered one of the greatest poets of the Sindhi language. Shah Abdul Latif Bhittai was born in 1689 in Hala Haveli's village Sui-Qandar located near Hyderabad, Pakistan. Shah Abdul Latif was son of Syed Habibullah and grandson of Syed Abdul Quddus Shah. He settled in the town of Bhit Shah in Matiari, Pakistan where his shrine is located. His most famous written work is the Shah Jo Risalo, which is a master-piece of Sindhi Literature as well. The major themes of his poetry include Unity of Almighty, love for Prophet, Religious tolerance and humanistic values. For his works, he is regarded as a 'Direct Emanations of Rūmī's spirituality in the Indian world.'

Names of Bhittai

Shah Abdul Latif Bhittai is known by several honorific names - Lakhino Latif, Latif Ghot, Bhittai and Bhitt Jo Shah. Shah Abdul latif's deepness of poetry affiliated with the relationship between the Almighty and human is cause of his visits at different places of the regions surrounded to him and he always feel the circumstances carried out in his premises and he feels the people mind he had such a calm and sharp mind and such things made him the greatest poet of the world, if one could seriously understand his preaching.

 
The Early Life

Most of the information that has come down to us has been collected from oral traditions. A renowned Pakistani scholar, educationist, and a foremost writer of plays, dramas and stories, Mirza Kalich Beg has rendered a yeoman service to Sindhi literature by collecting details about the early life of Shah Bhitai, from the dialogues that he has constantly held with some of the old folks, still living at that time, who knew these facts from their fathers and grandfathers for they had seen Shah Latif in person and had even spoken to him.

"The next day I sat down, and listened to the Story of the 'Vairagis.' Their salmon-coloured clothes were covered with dust. Their hair-bands were worn out. They had let their hair grow quite long. The lonely ones never talk to anyone about their being. These 'Nanga' are content and happy. They move about unmarked amongst the common folk." ........Shah Abdul Latif Bhitai

He was born around 1689 CE (1102 A.H.) to Shah Habib in the village Sui-Qandar a few miles to the east of the present town of Bhit Shah (named after him), on Safar 14, 1102 A.H. ie November 18, 1690 CE. He died at Bhit Shah on Safar 14, 1165 A.H., i.e. January 3, 1752 CE. In his memory, every year, on 14th Safar of the Hijri Calendar, an Urs is held at Bhit Shah, where he spent the last years of his life and where his elaborate and elegant mausoleum stands.

Shah Abdul Latif got his early education in the school (maktab) of Akhund Noor Muhammad in basic Persian (the government language at that time) and Sindhi (local spoken language). He also learned the Qu'ran. His correspondence in Persian with contemporary scholar Makhdoom Moinuddin Thattavi, as contained in the Risala-e-Owaisi, bears witness to his scholastic competence.

"Beloved's separation kills me friends, At His door, many like me, their knees bend. From far and near is heard His beauty's praise, My Beloved's beauty is perfection itself." .....Bhitai 

 
Bhitai's Ancestry

Shah Abdul Latif's lineage has been traced back directly to the Beloved Prophet Muhammad Sallallaho Alaihi wa Sallam, through Imam Zain-ul-Abideen Radi ALLAHu Ta'ala Anho, son of Imam Hussain Radi ALLAHu Ta'ala Anho. His ancestors had come from Herat in Central Asia, and settled at Matiari. Shah Abdul Karim 1600 CE, whose mausoleum stands at Bulri, about 40 miles from Hyderabad, a mystic Sufi poet of considerable repute, was his great, great grandfather. His verses are extant and his anniversary is still held at Bulri, in the form of an Urs.

His father Syed Habib Shah, lived in Hala Haveli, a small village, at a distance of about forty miles from Matiari and not far from the village of Bhitshah. Later he left this place and moved to Kotri, where Shah Latif spent some part of his adolescent life.

Education

Young Shah Abdul Latif was raised during the golden age of sindhi culture. His first teacher was Noor Muhammad Bhatti Waiwal. Mostly, Shah Latif was self-educated. Although he has received scanty formal education, the Risalo gives us an ample proof of the fact that he was well-versed in Arabic and Persian. The Qur'an, the Hadiths, the Masnawi of Maulana Jalaluddin Rumi, along with the collection of Shah Karim's poems, were his constant companions, copious references of which have been made in Shah Jo Risalo. In his poems he writes about Sindh and its neighbouring regions, he mentions distant cities such as Istanbul and Samarqand, he also writes about Sindhi sailors their navigation techniques voyages as far to the Malabar coast, Sri Lanka and the island of Java.

Appearance and Characteristics

In appearance, Bhitai was a handsome man, of average height. He was strongly built, had black eyes and an intelligent face, with a broad and high forehead. He grew a Sunnah beard. He had a serious and thoughtful look about himself and spent much time in contemplation and meditation, since he was concerned about his moral and spiritual evolution with the sole purpose of seeking proximity of the Divine. He would often seek solitude and contemplate on the burning questions running through his mind concerning man's spiritual life:

Why was man created?
What is his purpose on this earth? What is his relationship with his Creator?
What is his ultimate destiny?

Although he was born in favoured conditions, being the son of a well-known and very much respected Sayed family, he never used his position in an unworthy manner, nor did he show any liking for the comforts of life. He was kind, compassionate, generous and gentle in his manner of speech and behaviour which won him the veneration of all those who came across him. He had great respect for woman, and he exercised immense reserve in dealing with them, in an age when these qualities were rare. He hated cruelty and could never cause physical pain to any man or even to an animal. He lived a very simple life of self-restraint. His food intake was simple and frugal, so was his dressing which was often deep yellow, the colour of the dress of sufis and ascetics, stitched with black thread. To this day, his relics are preserved at Bhitsah (where his mausoleum stands), some of which include a "T"-shaped walking stick, two bowls, one made of sandal-wood and another of transparent stone, which he used for eating and drinking. His long cap and his black turban are also preserved.

"Cloud was commanded to prepare for rain, Rain pattered and poured, lightning flared. Grain hoarders, hoping for high prices, wring their hands, Five would become fifteen in their pages they had planned. From the land may perish all the profiteers, Herdsmen once again talk of abundant showers, Latif says have hope in Allah's blessed grace." ......Bhitai 

 
Quest for Religious Truths

In quest of religious truths, Shah Bhitai travelled to many parts of Sindh and also went to the bordering lands. He kept himself aloof from the political scene of favouritism and intrigues which was going on at the height of the power and rule of Kalhoras in Sindh. Instead of visiting towns and cities, in political canvassing, to serve the purpose of the rulers and elite of the land, though he was much respected by the members of the dynasty and could have benefited from it, he went to hills, valleys, the banks of river, and the fields, where he met the ordinary simple people, the sufis (mystics). He went to the Ganjo Hills in the south of Hyderabad for contemplation, and then to mountains in Las Bela in the south of Sindh and Balochistan. For three years, he travelled with these sufis in search of the truth, peace, and harmony, to Hinglay, Lakhpat, Nani at the foot of the Himalayas and to Sappar Sakhi. At several places in the Risalo, mention has been made of these sufis and of his visits to these wonderful, holy and peaceful places. The two surs, Ramkali and Khahori, describe them under various endearing names and a detailed account of the sufis' lifestyle is given. He also travelled to such far away places as Junagardh, Jesalmere and parts of the Thar desert.

"In deserts, wastes and Jessalmir it has rained, Clouds and lightning have come to Thar's plains; Lone, needy women are now free from care, Fragrant are the paths, happy herdsmen's wives all this share." ..........Bhitai 

Piety and Asceticism

By the time he was a young man of twenty one years, he began to be known for his piety, his ascetic habits and his absorption in prayers. Observation and contemplation were chief traits of his character. A number of people flocked round him adding to the already large number of his disciples. This aroused jealousy of some powerful, ruthless, tyrannical persons - landlords, Pirs, Mirs, and Rulers - who became his enemies for some time. Later, seeing his personal worth, and the peaceful and ascetic nature of his fame, abandoned their rivalry. At this time he was living with his father at Kotri, five miles away from the present site of Bhitshah. It was here that his marriage was solemnised in 1713 CE with Bibi Sayedah Begum, daughter of Mirza Mughul Beg. She was a very virtuous and pious lady, who was a proper companion for him. The disciples had great respect for her. They had no children.

In the true ascetic spirit, Shah Latif was now in search of a place where in solitude, he could devote all his time in prayers and meditation. Such a place he found near Lake Karar, a mere sand hill, but an exotic place of scenic beauty, four miles away from New Hala. This place was covered by thorny bushes surrounded by many pools of water. It was simply and aptly called 'Bhit' (the Sand Hill). On the heaps of its sandstones he decide to settle down and build a village. As it was sandy, he along with his disciples dug out the hard earth from a distance and covered the sand with it to make the ground firm. After months of hard labour, carrying the earth on their heads and shoulders, the place was now fit enough for the construction of an underground room and two other rooms over it, along with a room for his old parents. A mosque was also built and the houses of his disciples properly marked out. In 1742, whilst he was still busy setting up a new village, Bhit, he got the sad news of the death of his dear father.. Soon after this Shah Latif shifted all his family members from Kotri to Bhitsah, as the village now began to be called. His father was buried there, in accordance to his will, where his mausoleum stands only eight paces away, from that of Shah Abdul Latif, towards its north.

The Seven Queens of Sindh

The women of Shah Abdul Latif’s poetry are known as the Seven Queens, heroines of Sindhi folklore who have been given the status of royalty in the Shah Jo Risalo. The Seven Queens were celebrated throughout Sindh for their positive qualities: their honesty, integrity, piety and loyalty. They were also valued for their bravery and their willingness to risk their lives in the name of love.

Perhaps what Shah Abdul Latif Bhitai saw in his tales of these women was an idealised view of womanhood, but the truth remains that the Seven Queens inspired women all over Sindh to have the courage to choose love and freedom over tyranny and oppression. The lines from the Risalo describing their trials are sung at Sufi shrines all over Sindh, and especially at the urs of Shah Abdul Latif every year at Bhit Shah.

The Seven Queens mentioned in the Shah Jo Risalo are:
  • Marvi
  • Momal
  • Sassi
  • Noori
  • Sohni
  • Sorath
  • Lila
The Final Years

For the last eight years of his remarkable life, Shah Latif lived at Bhitshah. A few days before his death, he retired to his underground room and spent all his time in prayers and fasting, eating very little.

Laggi Laggi wa'a-u wiarra angrra latji, Pa-i kharren pasah-a pasand-a karrend-i pirin-a jay.
Wind blew! The sand enveloped the body, Whatever little life left, is to see the beloved.

After 21 days in there, he came out and having bathed himself with a large quantity of water, covered himself with a white sheet.

He suffered from no sickness or pain of any kind. The date was 14th Safar 1165 Hijra corresponding to 1752 CE. He was buried at the place where his mausoleum now stands, which was built by the ruler of Sindh, Ghulam Shah Kalhoro. His name literally means 'the servant of the Shah'. He, along with his mother, had adored and revered Shah Latif and were his devoted disciples. The work of the construction of the mausoleum was entrusted to the well-known mason, Idan from Sukkur. The mausoleum, as well as the mosque adjoining it, were later repaired and renovated by another ruler of Sindh, Mir Nasir Khan Talpur.

Korren kan-i salam-u achio a'atand-a unn-a jay.
Countless pay homage and sing peace at his abode.

"Tell me the stories, oh thorn-brush, Of the mighty merchants of the Indus, Of the nights and the days of the prosperous times, Are you in pain now, oh thorn-brush? Because they have departed: In protest, cease to flower. Oh thorn-brush, how old were you When the river was in full flood? Have you seen any way-farmers who could be a match of the Banjaras? True, the river has gone dry, And worthless plants have begun to flourish on the brink, The elite merchants are on decline, And the tax collectors have disappeared, The river is littered with mud And the banks grow only straws The river has lost its old strength, You big fish, you did not return When the water had its flow Now it's too late, You will soon be caught For fishermen have blocked up all the ways. The white flake on the water: Its days are on the wane." ......Bhitai [translated by Prof. D. H. Butani [1913-1989] in The Melody and Philosophy of Shah Latif

The Urs Sharif

The URS is a Grand event in Sindh, where people from almost every village and town of Sindh and from different cities of other provinces of Pakistan - rich and poor, young and old, scholars and peasants - make a determined effort to attend. The Urs commences every year from 14th Safar (2nd month of Hijra calendar) and lasts for three days. A literary gathering is also held where papers concerning the research work done on the life, poetry, and message of Bhitai, are read, by scholars and renowned literary figures. His disciples and ascetics, gather around and read passages from his Risalo. Scholarly debates and exhibitions of his work and traditional Sindhi artifacts are also organized.

"Sleeping on the river's bank, I heard of Mehar's glory, Bells aroused my consciousness, longing took its place, By Almighty! fragrance of Mehar's love to me came, Let me go and see Mehar face to face." .....Bhitai

Syed Abdullah Shah Qadri (Baba Bulleh Shah)


Hadrat Sayyid Abdullah Shah Qadiri
Baba Bulleh Shah Alaihir raHmah
Hadrat Sayyid Abdullah Shah Qadiri also known as Hadrat Baba Bulleh Shah Alaihir raHma is universally admitted to have been the greatest of the Panjabi mystics. No Panjabi mystic poet enjoys a wider celebrity and a greater reputation. His kafis have gained unique popularity. In truth he is one of the greatest Sufis of the world and his thought equals that of Jalal al-Din Rumi and Shams Tabriz of Persia. As a poet Bulleh Shah is different from the other Sufi poets of the Panjab, and represents that strong and living pious nature of Panjabi character which is more reasonable than emotional or passionate. As he was an outcome of the traditional mystic thought we can trace some amount of mystic phraseology and sentiment in his poetry but, in the main, intellectual vedantic thought is its chief characteristic.

He was born in a Saiyyid family residing at, the village Pandoki of Kasur in the Lahore district, in the year A.D. 1680. This was during the twenty-first year of Emperor Aurangzeb’s reign. According to C. F. Usborne he passed away in A.H. 1171 or A.D. 1785 (i.e. in the short reign of Alamgir the Second) at the ripe old age of 78.
A large amount of what is known about Bulleh Shah comes through legends, and is subjective; to the point that there isn’t even agreement among historians concerning his precise date and place of birth. Some "facts" about his life have been pieced together from his own writings. Other "facts" seem to have been passed down through oral traditions.

Baba Bulleh Shah practiced the Sufi tradition of Punjabi poetry established by poets like Shah Hussain (1538 – 1599), Sultan Bahu (1629 – 1691), and Shah Sharaf (1640 – 1724) Alaihim ar-RaHmah.

Baba Bulleh Shah lived in the same period as the famous Sindhi Sufi poet , Shah Abdul Latif Bhittai (1689 – 1752). His life also overlapped with the legendary Punjabi poet Waris Shah (1722 – 1798), and the famous Sindhi Sufi poet Abdul Wahad (1739 – 1829), better known by his pen-name, Sachal Sarmast (“truth seeking leader of the intoxicated ones”).
After completing his education, it is said that Baba Bulleh Shah went to Lahore. Of the two traditions, one says that, as was customary in those days, he came to Lahore in search of a spiritual teacher, while the other relates that he went there on a visit. Each of these two contradictory traditions has a legend to support it. The first relates that while he was busy searching the intellectual circles of Lahore to find out a competent master he heard of Shah Inayat’s greatness and decided to make him his Murshid. He turned his steps towards the house of the Shah, and found him engrossed in his work in the garden. Having introduced himself, Baba Bulleh Shah requested that he might be accepted a disciple and taught the secret of God. Thereupon Hadrat Shah lnayat Alaihir raHmah said:

Bullhia rabb da pan ai
edharo puttan odharo lan hai.

O Bulleh! the secret of Almighty Allah is this; on this side He uproots, on the other side He creates.

‘This’, says the tradition. ‘so impressed Baba Bulleh Shah that, forgetting his family and its status, he became Inyat Shah’s disciple.
The second tradition says that Shah Inayat was the head gardener of the Shalimar gardens of Lahore. When in Lahore, Baba Bulleh Shah visited them, and as it was summer, he roamed in the mango-groves. Desirous of tasting the fruit he looked round for the guardian but, not finding him there, he decided to help himself. To avoid the sin of stealing, he looked at the ripe fruit and said; ‘ALLAHu Ghani’. On the utterance of these magic words a mango fell into his hands. He repeated them several times, and thus collected a few mangoes. Tying them up in his scarf he moved on to find a comfortable place where he could eat them. At this time he met the head gardener, who accused him of stealing the fruit from the royal gardens. Considering him to be a man of low origin and desirous of demonstrating to him his occult powers, Baba Bulleh Shah said ironically: ‘I have not stolen the mangoes but they have fallen into my hands as you will presently see.’ He uttered ‘ALLAHu Ghani’ and the fruit came into his hand. But to his great surprise the young Saiyyid found that Inayat Shah was not at all impressed but was smiling innocently. The great embarrassment of Bullhe Shah inspired pity in the gardener’s heart and he said: ‘You do not know how to pronounce properly the holy words and so you reduce their power.’ So saying, he uttered ‘ALLAHu Ghani’, and all the fruits in the gardens fell on the lovely lawns. Once again he repeated the same and the fruit went back on to the trees. This defeat inflicted by the guardian, whom the young Saiyyid Bullhe Shah considered ignorant and low, revolutionized his whole thought. Falling at the feet of Inayat Shah he asked to be classed as his disciple and his request was immediately granted.
The above two traditions, though different in detail, come to the same conclusion, that Baba Bulleh Shah, impressed by the greatness of Inayat, became his disciple. Bullhe Shah in his verse often speaks of his master Inayat Shah and thanks his good luck for having met such a murshid.

Bulleh Shah ve nic kamini
Shah inayat tari.

 Says Bulleh Shah, O Almighty the Lord Inayat has saved me, low and mean.

And:

Bullhe Shah di suno hakait
hadi pakria hog hadait
mera murshid Shah Inayat
Uh langhaai par.

Listen to the story of Bullhe Shah, he has got hold of the peer and shall have salvation. My teacher, Shah Inayat, he will take me across.

In an account of the Panjabi poets it would perhaps be out of place to speak at great length of Shah Inayat who wrote in Persian. But the influence exerted by him through his teachings and writings has linked him with Panjabi literature. Baba Bulleh Shah the Rumi of the Panjab, came most directly under his influence and, having learnt from him, was inspired to write his remarkable poetry. It will therefore, be proper to give a short account of this wonderful man.
Hadrat Shah Inayat Qadiri and his School

Hazrat Shaykh Muhammad Inayatullah, generally known as Shah Inayat Qadiri, was born at Kasur in the Lahore district, of Arais parents. The arias in the Panjab were gardeners or petty cultivators. They are known to be Hindu converts to Islam and are therefore considered inferior.

He was educated after the manner of his time and gained a good knowledge of Persian and Arabic. As he was born with a mystic disposition he became a disciple of the famous Sufi scholar and saint Muhammad Ali Raza Shattari. After he had finished his studies he was created a khalifa. Later on he received the khilafat of seven other sub-sects of the Sufi Qadiri. Soon after this event he left Kasur and migrated to Lahore .The author of Bagh-i-Awliya-e-Hind says that the great enmity of the Hakim Hussain Khan compelled him to migrate, but his descendants assert that it was the order of his teacher that brought him to Lahore. Here after having quelled the jealousy of his famous contemporaries, he established a college of his own. To this college came men of education for further studies in philosophy and other spiritual sciences of the time.

Inayat Shah was a well-known Qadiri Sufi of his time. From the historical point of view the Qadiri Sufis can be traced back to the Sufi Saint Abdul Qadri Jilani of Bagdad. Jilani is also known by the names Peer Dastgeer and Peeran-e-Peer. Bulleh Shah himself has also given a hint that his "Master of Masters" was born in Bagdad but his own Master belonged to Lahore:
My Master of Masters hailed from Baghdad,
but my Master belongs to the throne of Lahore.
It is all the same. For He himself is the kite
and He himself is the string.
Such was the man whom Baba Bulleh Shah made his Murshid. This action of Baba Bulleh Shah, however, was highly displeasing to his family. His relatives tried to induce him to give up Inayat and find another murshid. But Baba Bulleh Shah was firm and paid no attention to them or to their wailings. The following will sufficiently demonstrate the indignation of the family:

Bulleh nu samjhawan aiyaan bhena te bharjhaiyaan
Aal nabi ullad Nabi nu tu kyun leekaan laaiyaan
Manlay Bulleya sada kehna chad de palla raiyaan

To Bulleh sisters and sisters-in-law came to explain (advise). Why, O Bulleh, have you blackened the family of the Prophet and the descendants of Ali? Listen to our advice, Bulleh, and leave the skirt of the aria.

To this reproach Baba Bulleh Shah firmly but indifferently replies:

Jehra sanu saiyad akkhe dozakh miln sazaiya
Jehra sanu rai akkhe bahishti piga paiya
Je tu lore bag bahara Bullhia Talib ho ja raiya.

He who calls me a Saiyyid, shall receive punishments in Hell, he who calls me an arai shall in heaven have swings; O Bulleh, if you want pleasures of the garden become a disciple of the aria.

Raeen saain sabhan thaain rab diyaan be parwaiyaan
Sohniyaan pare hataiyaan te khoojiyaan lay gall laiyaan
Arain and masters are born at every place, God does not discriminate against anyone.
Wise people don't care for such differences, only the ugly ones do


Je tu loorain baag baharaan chaakar hoo ja raiyaan
Bulleh Shah di zaat ki puchni shakar ho razaiyaan
If you seek to the gardens of heaven, become a servant to the ‘Arains’. Why ask about the caste of Bulleh Shah? Instead be grateful in the God's will.
Baba Bulleh Shah seems to have suffered at the hands of his family, as he has once or twice mentioned in his poetry. In the end, being convinced of the sincere love and regard of their child for Inayat Shah, the family left him alone. It is said that one of his sisters, who understood her brother, gave him her support and encouraged him in his search for truth.

After the demise of Hadrat Shah Inayat, Baba Bullhe Shah returned to Kasur. He remained faithful to his Beloved and to himself by not marrying. The sister who understood him also remained single and kept him company in his last years. He died in A.D. 1758 and was buried in Kasur, where his tomb still exists.

May Allah SubHanuhu wa Ta'ala elevate his Status and bless with a part from the Divine Love of Hadrat Sayyid Abdullah Shah Qadiri that he had for HIM (Almighty) and accept our remembrance of the Great Wali and the Sufi Master and make it a medium for us to receive his divine mercy and blessings… Aameen!!

Hazrat Abdullah Shah Ghazi in Karachi


Abdullah Shah Ghazi was the great grandson of the Prophet Muhammad from the linage of Hasan Ibne Ali Ibne Abu Talib[citation needed], making him a member of the Ahl al-Bayt.
The growing popularity of Abdullah Shah caused concern amongst the Ummayyad dynasty who dispatched an army to Sindh. The Ummayyads, and their successors the Abbasids, were known for their hatred of the Banu Hashim (the tribe of Prophet Muhammad and Hadrat Ali ibn Abu Talib) and mercilessly tracked and killed thousands of members of this tribe.
Abdullah Shah was on a hunt in what is now present day Karachi, when the Ummayyad army intercepted his party. Out numbered, Abdullah Shah still chose to fight rather than submit to the Umayyad army. It is because of his display of valor in the face of the Ummayyad army that Abdullah Shah was given the honorable title of "Ghazi" meaning "victorious".
His shrine in Karachi is dated back to 1400 years ago, his brother, Misry Shah, who is also buried along the coastline in Karachi, is also remembered as a saint.
Many people claim to have been granted their wishes at the shrine and it is the center for people who throng the shrine all year round. Every year marks the Urs (festival) at the shrine for 3 days (dates: 20-22 Dhu al-Hijjah - 12th month of the Islamic calendar), marking the anniversery of Abdullah Shah Ghazi.A famous myth about the mazar is that Karachi never had a tropical disaster in a thousand year because of the shrine's blessing.
Abdullah Shah Ghazi is revered by both Sunni and Shia alike, however his blood line gives him a special status in the Shia community by some. Muhammad bin Qasim was sent for Abdullah Shah Ghazi in his hunt, however that time Raja Dahir, the ruler of Karachi had hosted Abdullah Shah Ghazi and had denied to turn him over to Qasim. Where Qasim revolted against him, massacring the army of Dahir and martyring Abdullah  Ghazi.                                                                                                                                                                                        HAZRAT ABDULLAH SHAH GHAZI ( RAHMATULLAH ALLAIH ) is one of the Greatest and Famous Sufi saint. Hazrat Abdullah Shah Ghazi (RA). Belongs to the 4th generation of Hazrat Amir ul Momineen Hazrat Ali Karam Allahu Wajhu. Hazrat Abdullah Shah Ghazi (RA) migrated from Arab to Karachi area and took wisal here.

A VERY FAMOUS AND GREAT MIRACLE AT DARGAH SHAREEF'S WELL : The Dargah Shareef of Hazrat Abdullah Shah Ghazi (RA) is adjacent to sea ( Arbia sea ). The sea water and water of other wells in this area are salty. But the water in Dargah shareef of Hazrat Abdullah Shah Ghazi (RA) is very sweet, which is a great miracle and many people say the holy water of 
this dargah shareef is a great tabaruk and many people get cure by drinking this water.                                                      حضرت سید ابو محمد عبد اللہ الاشتر              
(المعروف) عبد اللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ                                            98ھ میں حضرت سید محمد نفس ذکیہ کے ہاں اسلام کے ایک درخشاں ستاری نے مدینہ منورہ میں آنکھ کھولی۔ یہ تھے حضرت عبد اللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ۔ آپ حسنی حسینی سید ہیں۔ یہ بات آپ کے شجرہ مبارک سے ثابت ہے۔

شجرہ نسب:
آپ کے شجرہ مبارک پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کتنی قدیم ہستیوں میں سے ہیں۔ آپ ہیں سید ابو محمد عبداللہ الاشتر (عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ) بن سید محمد ذوالنفس الزکیہ بن سید عبداللہ المحض بن سید مثنیٰ بن سیدنا حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن حضرت سیدنا امیر المومنین علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم۔ حضرت سیدنا حسن مثنیٰ کی شادی حضرت سیدہ فاطمہ صغریٰ بنت سیدنا حضرت امام حسین سے ہوئی اسی وجہ سے آپ حسنی حسینی سید ہیں۔

تعلیم:

تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ آپ کی تعلیم و تربیت آپ کے والد صاحب کے زیر سایہ مدینہ منورہ میں ہی ہوئی۔ آپ علم حدیث پر عبور رکھتے تھے۔ اور کچھ مورخین نے تو آپ کو محدث تک بھی لکھا ہے۔
 
سندھ آمد:
بنو امیہ کی حکومت زوال پذیر ہوچکی تھی جب 138ھ میں آپ کے والد صاحب نے مدینہ منورہ سے علوی خلافت کی تحریک شروع کی اور اپنے بھائی حضرت ابراہیم بن عبداللہ کو اس ضمن میں بصرہ روانہ کیا اس زمانے میں سادات کے ساتھ انتہائی ظلم کا رویہ روا رکھا گیا تھا۔ اس ظلم کے کئی ایک واقعات معروف ہیں جن میں حضر ت بن ابراہیم کا واقعہ خاص طور پر مشہور ہے۔ جب آپ کو انتہائی بے دردی کے ساتھ دیوار میں زندہ چن دیا گیا۔ یہ دیوار آج بھی بغداد میں مشہور ہے۔ حضرت بن ابراہیم انتہائی وجیہ اور حسین و جمیل تھے جس کی وجہ سے آپ کا لقب دیباج مشہور ہوا۔ عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کے والد صاحب نے آپ کو اپنے بھائی حضرت ابراہیم کے پاس بصرہ بھیجا اور آپ وہاں سے ہوتے ہوئے سندھ کی جانب روانہ ہوئے۔ تاریخ الکامل' جلد پنجم میں لکھا ہے کہ آپ خلیفہ منصور کے دور میں سندھ تشریف لائے۔ تحفتہ الکریم کے مصنف شیخ ابو تراب نے آپ کی سندھ میں موجودگی خلیفہ ہارون رشید کے دور سے منسوب کی ہے۔

آپ کی سندھ آمد کے ضمن میں دو قسم کے بیان تاریخ سے ثابت ہیں۔ ایک یہ کہ آپ تبلیغ اسلام کیلئے تشریف لائے تھے اور دوسرے یہ کہ آپ علوم خلافت کے نقیب کی حیثیت سے (ملاحظہ ہو تاریخ الکامل لا بن الشت' ابن خلدون' طبری اور میاں شاہ مانا قادری کی تحریریں) تاجر کے روپ میں آئے تھے۔ تاجر اس لئے کہا گیا کہ آپ جب سندھ آئے تو اپنے ساتھ بہت سے گھوڑے بھی لائے تھے۔ آپ نے یہ گھوڑے اپنے کم و بیش بیس مریدوں کے ہمراہ کوفہ سے خریدے تھے۔ آپ کی آمد پر یہاں کے مقامی لوگوں نے آپ کو خوش آمدید کہا اور سادات کی ایک شخصیت کواپنے درمیان پاکر بہت عزت اور احترام کا اظہار کیا۔ آپ بارہ برس تک اسلام کی تبلیغ میں سرگرداں رہے اور مقامی آبادی کے سینکڑوں لوگوں کو مشرف با اسلام کیا۔

یہ تو ہے کہانی ظاہری حالات کی جن کو تاریخ الکامل لابن الشتر اور ابن خلدون' طبری وغیرہ میں قلمبند کیا ہوا ہے لیکن ایک عظیم ہستی جو حسنی حسینی سید ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اولاد ہے باطنی شاہسواری سے کیسے خالی ہوسکتی تھی۔ ایک زمانہ کب سے ان کے فیض سے سیراب ہورہا ہے۔ ان کی باطنی زندگی پر ابھی کسی نے کچھ نہیں لکھا شاید اس وجہ سے کہ ان کی اپنی تحریریں یا ان کے کسی ہم عصر کی ان کے بارے میں کوئی تحریریں دستیاب نہیں ہیں اور شاید اس وجہ سے کہ وہ بہت پہلے کے اولیائے کرام میں سے ہیں اور دوسرے اس وجہ سے بھی کہ اس زمانے میں سلسلہ ہائے تصوف آج کی طرح نہیں تھی۔ تصوف کے سلسلوں کی زیادہ شہرت اور تشہیر حضرت عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ اور دیگر بزرگوں کے آنے کے بعد ہوئی۔ ان کا مزار پر انوار مرجع خلائق بنا ہوا ہے یہ ویسے تو نہیں ہے ولایت تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی مرہون منت ہے۔ وہی اس کا منبع ہیں یہ کسی نے نہیں لکھا اور نہ کہا کہ وہ جو امانت حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے سینہ بسینہ چلی وہ ان کے حصہ میں نہیں آئی۔ شہادت ان کے آباؤ اجداد میں چلی آرہی ہے ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے لے کر غازی شاہ رحمتہ اللہ علیہ صاحب کے والد اور چچا شہید ہوئے۔ خود آپ نے بھی شہادت کا رتبہ پایا اپنی جان سے زیادہ کیا چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کی جاسکتی ہے یہ تو شہادت جلی ہے مگر کیا کسی نے لکھا ہے کہ وہ شہید خفی بھی ہیں؟ جب وہ حق ہوچکے تو راہ حق میں شہید ہوئے دولت سرمدی کا متحمل وہی ہوسکتا ہے جس کو فطرت اس کا اہل سمجھتی ہے۔


والد کی شہادت:
حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کے سندھ قیام کے دوران گورنر سندھ کو خبر آئی کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے والد صاحب نے مدینہ منورہ میں اور ان کے بھائی حضرت ابراہیم نے بصرہ میں عباسی خلافت کے خلاف بغاوت کردی ہے۔ 145ھ میں یہ اطلاع آئی کہ آپ کے والد حصرت سید محمد نفس ذکیہ مدینہ منورہ میں 15 رمضان المبارک کو اور اسی سال آپ کے چچا حضرت ابراہیم بن عبداللہ 25 ذیقعد (14فروری 763ء) کو بصرہ میں شہید کردیئے گئے۔

گورنر سندھ کی بیعت اور آپ کی تعظیم:
حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کے والد صاحب اور چچا کی شہادت کے بعد عباسی خلافت کے مرکز (خلیفہ منصور) سے آپ کی گرفتاری کے احکامات بھی صادر ہوئے۔ مگر چونکہ آپ کے حصے میں میدان جنگ میں شہادت لکھی گئی تھی لہذا آپ کی گرفتاری تو عمل میں نہیں آسکی۔ حضرت حفص بن عمر گورنر سندھ آپ کی گرفتاری کے معاملے کو مسلسل ٹالتے رہے۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح کچھ وقت گزر جائے گا اور خلیفہ منصور غازی شاہ رحمتہ اللہ علیہ کی گرفتاری کے معاملے کو بھول جائے گا مگر جو لوگ اقتدار سے لگاؤ رکھتے ہیں وہ کسی طرح کا خطرہ مول نہیں لیتے بلکہ چھوٹے سے چھوٹے خطرے کو بھی برداشت کرسکتے۔ چنانچہ خلیفہ منصور کے دل سے ہرگز بھی عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کی گرفتاری کا خیال ماند نہیں پڑا۔ حالانکہ گورنر سندھ حضرت حفص بن عمر نے اہل بیت سے محبت کے جذبے کے تحت یہ بھی خلیفہ کو کہا کہ حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ میری مملکت کی حدود میں نہیں ہیں لیکن خلیفہ کو اس پر بھی اطمینان نہیں ہوا۔

ساحلی ریاست آمد:
گورنر سندھ حضرت حفص نے اپنی محبت' عقیدت اور سادات سے لگاؤ اور بیعت کرلینے کے بعد آپ کو بحفاظت ایک ساحلی ریاست میں بھیج کر وہاں کے راجہ کا مہمان بنایا۔ یہ راجہ اسلامی حکومت کا اطاعت گزار تھا۔ اس نے آپ کی آمد پر آپ کو خوش آمدید کہا اور انتہائی عزت اور قدر و منزلت سے دیکھا۔ آپ کو چار سال یہاں ان کے مہمان رہے۔ اس عرصہ میں آپ نے پہلے کی طرح اسلام کی تبلیغ جاری رکھی اور سینکڑوں لوگوں کو اسلام سے روشناس کرایا۔ لاتعداد لوگ آپ کے مریدین بن کر آپ کے ساتھ ہوگئے۔

سندھ میں اسلام کی تبلیغ:
کہاں سندھ کہاں سعودی عرب ۔ کتنی مسافت ہے۔ کتنا لمبا سفر ہے۔ صحابہ کرام کے بعد کوئی اسلام کی تعلیم دینے یا تبلیغ کرنے کیلئے سندھ نہیں آیا تھا۔ یہ بات بھی تاریخ ہی سے ثابت ہوتی ہے کہ اس کے بعد سندھیوں کے بنجر دل کی زمین میں سب سے پہلے حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ نے ہی اسلامی بیج بویا پھر اس کی آبیاری کی اور محبت' اخوت اور بردباری سے دلوں کو گرمایا اور ایمان کی زرخیزی سے روشناس کروایا۔ اس لئے کہ جو کام ان کے ذمہ تھا وہ صرف ظاہر سے نہیں ہوسکتا تھا۔ تاریخ کو رخ عطا کرنے والے ظاہر کے ساتھ باطن کی دنیا کے شاہسوار بھی ہوتے ہیں۔ جن کا ظاہر پر کم اور باطن پر زیادہ زور اور توجہ ہوتی ہے۔
 
اسباب غیب:
دراصل ان ہستیوں کیلئے اس دارلعمل میں جس جگہ کا انتخاب کیا ہوتا ہے وہاں ان کیلئے اسباب بھی مہیا ہوتے ہیں۔ (گورنر سندھ حضرت عمر بن حفص کا مطیع ہونا۔ اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کی گرفتاری کے خلیفہ منصور کے احکامات ٹالنا۔ آپ کو بحفاظت دوسری ریاست میں بھیجنا یہ سب غیبی اعانت تھی اور آپ کے عمل کی تائید تھی) اگرچہ عباسی خلیفہ منصور آپ سمیت تمام سادات کے قتل کے در پہ تھا اس نے اطلاع ملنے پر بارہا حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کو گرفتار کرنے کے احکامات دیئے لیکن قدرت نے جو کام آپ سے لینا تھا اس کیلئے پورا پورا اہتمام کیا ہوا تھا۔ ایک ایسا گورنر سندھ میں متعین تھا جو آپ کی تعظیم اور خیال کرتا تھا اور کسی قیمت پر آپ کو تکلیف نہ پہنچانا چاہتا تھا بلکہ ان نیک بخت گورنر یعنی عمر بن حفص نے آپ کے ہاتھ پر بیعت بھی کرلی تھی اور در پردہ آپ کی حمایت کرتا تھا۔

سیر و شکار:
تاریخ سے ثابت ہے کہ اس زمانے میں جب آپ سیر اور شکار کی غرض سے کہیں جاتے تھے تو شان و شوکت اور کروفر سے اور سازو سامان بھی ساتھ ہوتا تھا جس سے آپ کی شان و شوکت کا اظہار ہوتا تھا۔ کیوں نہ ہو حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کس نسب کے چشم و چراغ تھے۔ یہ غالباً اس لئے بھی تھا کہ آپ کی درویشی پر امارت کا پردہ بھی پڑا رہے۔ اورجو امانت آپ کے سپرد تھی آ پ کے سینے میں محفوظ و مخفی رہے۔

بھائی:
یہ بھی باور کرانا ضروری ہے کہ آپ کے علاوہ آپ کے ایک دوسرے بھائی بھی ہیں وہ بھی بہت بڑے ولی تھے۔ انہوں نے بھی اسلام کی گراں قدر خدمات انجام دیں ہیں۔ آپ کا مزار مراکش میں ہے اور وہاں کا سب سے معروف مزار ہے۔ اور وہاں مرجمع' خلائق بنا ہوا ہے۔ اس کا تذکرہ بھی تاریخ اسلام میں موجود ہے۔
 
حکمرانی:
 
حکومت دو قسم کی ہوتی ہے ایک خطہ پر اور دوسری حکومت جو حقیقی حکومت ہے وہ قلوب پر ہوتی ہے عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کی حکومت ظاہر و باطن دونوں پر قائم ہے۔ سارے دفتر ان کے ہیں جہاں تمام زائرین کی مرادوں اور دعاؤں کی عرضیاں موصول کی جاتی ہیں اور پھر ان پر احکامات صادر ہوتے ہیں۔ ثبوت یہ ہے کہ اگر زائرین کی مرادیں پوری نہ ہورہی ہوں تو پھر یہ جم غفیر کیسا۔ جوہر آنے والے دن کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ جمعرات کو تو آپ رحمتہ اللہ علیہ کے مزار کی سیڑھیاں بھی چڑھنا دشوار ہوتا ہے۔ عام ایام میں بھی زائرین کا تانتا بندھا رہتا ہے ۔ عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کی باطنی حکومت کا حال کہاں سے معلوم ہوگا کس نے اس پر لکھا ہے کس لائبریری اور دفتر سے یہ تفصیل موصول ہوگی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث مبارک ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میرے امتی بنی اسرائیل کے نبیوں کے ہم مرتبہ ہونگے۔

یہ وہی ہیں جنہوں نے اپنی زندگی امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے وقف کی ہوگی۔ یہ وہی ہیں جن کو غم امت لاحق ہوگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی میں انہوں نے وہی کچھ کیا ہوگا جو نبیوں نے کیا۔

وفات:
۲۰ ذی الحج ١٥١ھ میں آپ علیہ الرحمہ پردہ فرما کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ کراچی کے ساحلی علاقے کلفٹن میں آپ علیہ الرحمہ کا مزار پر انوار مرجع ہر خاص و عام ہے اور اپنی نورانیت اور برکت سے اس شہر کو خصوصا اور پورے پاکستان کو عموما اپنی رحمت میں لیے ہوئے ہے۔           

Sunday, 23 September 2012

Hazrat Baba Fariduddin Masood Ganjshakar


Urdu: حضرت بابا فریدُ الدین مسعوُد گنج شکر
Silsila: Chishtia
Date of Wisaal: 1265 A.D.
Date of Urs: 5th, 6th and 7th of Muharram (Islamic Date)
Address:
Pakpattan, Punjab, Pakistan
Description:
Hazrat Baba Fariduddin Masood Ganjshakar Persian (1173-1266) or (1188 (584 Hijri) - May 7, 1280 (679 T-lijri)), commonly known as Baba Farid was a 12th century Sufi preacher and saint of Chishti Order of South Asia.
Farid is generally recognized as the first major poet of the Punjabi language and is considered one of the pivotal saints of the Punjab region. Revered by Muslims and Hindus, he is also considered one of the fifteen Sikh Bhagats within Sikhism and his works form part of the Guru Granth Sahib, the Sikh sacred scripture.

Life and Genealogy

Baba Fareed was born in 1188 or 1173 CE (584 Hijri) at Kothewal village, 10 km from Multan in the Punjab region of Pakistan, to Jamal-ud-din Suleiman and Maryam Bibi (Qarsum Bibi), daughter of Sheikh Wajih-ud-din Khojendi. He was a descendant of Farrukh Shah Kabuli, the King of Afghanistan.
He was the grandson of Shaykh Shoaib who was the grandson of Farrukh Shah Kabuli, the king of Kabul and Ghazni. When Farrukh Shah Kabuli was killed by the Mongol hordes invading Kabul, Farid's grandfather Shaykh Shoaib left Afghanistan and settled in the Punjab in 1125.
Farid's genealogy is summarized below:
  • Umar Bin Khattab, second Caliph
  • Abdullah Bin Umar
  • Nasir
  • Sulaiman
  • Adham, King of Balkh and Bukhara
  • Ibrahim Bin Adham aka Abou Ben Adham
  • Ishaq
  • Abul Fatah
  • Abdullah Waa'iz Kobra
  • Abdullah Waa'iz Soghra
  • Masood
  • Sulaiman
  • Ishaq
  • Mohammad
  • Naseeruddin
  • Farrukh Shah Kabuli, King of Afghanistan
  • Shahabuddin Kabuli
  • Mohammed
  • Yousuf
  • Ahmed, died fighting Hulagu Khan
  • Shoaib
  • Jamaluddin Sulaiman
  • Baba Fareed
Baba Farid received his early education at Multan, which had become a centre for education; it was here that he met his master murshid, Qutbuddin Bakhtiar Kaki, a noted Sufi saint, who was passing through Multan, from Bagdad on way to Delhi. Upon completing his education, Farid left for Sistan, and Kandahar and went to Mecca for the Hajj pilgrimage aged 16.
Once his education was over, he shifted to Delhi, where he learned the doctrine of his Master, Qutbuddin Bakhtiar Kaki. He later moved to Hansi, Haryana. When Qutbuddin Bakhtiar Kaki died in 1235, Farid left Hansi, and assumed the role of spiritual successor of his Master, though he settled not in Delhi but in Ajodhan (the present Pakpattan, Pakistan). On his way to Ajodhan and passing through Faridkot, he met the 20-year old, Nizamuddin Auliya, who went on to become his disciple, and later his successor (khalifa).
Baba Farid married Hazabara, daughter of Sultan Nasiruddin Mahmud. He died on 5th of Muharram, Tuesday, 7 May 1266 CE (679 Hijri) during Namaz. His darbar is in Dera Pindi, and his name is Khawaja Shaikh Muhammad Paak Ghareeb Nawaz. His epitpah reads, "There is only one Fareed, though many spring forth from the bud of the flower".
His descendants, also known as Fareedi, Fareedies and Faridy, mostly carry the name Farooqi, can be found in India, Pakistan and the Diaspora.

Poetry

  • Fareed, this world is beautiful, but there is a thorny garden within it.
  • Fareed, do not turn around and strike those who strike you with their fists.
  • Fareed, when there is greed, what love can there be? When there is greed, love is false.
Farid Kaaley maindey kaprey, kaala mainda wais,

Gunahan Bharehan main pheraan, Lok kahain dervish
TRANSLATION: Laden with my load of misdeeds, I move about in the garb of black garments. And the people see me and call me a dervish.
Galian chikkar door ghar, naal payarey neouney,

challaan tey bhijjay kambli, rahan ta jaaey neouney
TRANSLATION: My promise with my love, a long way to go and a muddy lane ahead If I move I spoil my cloak; if I stay I break my word.

Legacy

One of Farid's most important contributions to Punjabi literature is his development of the language for literary purposes. Whereas Sanskrit, Arabic, Turkish and Persian had historically been considered the languages of the learning, the elite and in monastic centers, Punjabi was generally considered a lesser refined folk language. Although earlier poets had written in a primitive Punjabi, there was little beyond Punjabi literature besides the range of traditional and anonymous ballads. By using Punjabi as the language of poetry, Farid laid the basis for a vernacular Punjabi literature that would be developed later.
Amongst, famous people who visited his shrine over the centuries, are famous scholar-explorer, Ibn Battuta, who visited in 1334, and Founder of Sikhism, Guru Nanak Dev, who met then head of the shrine, Sheikh Ibrahim, twice, and his meeting lead to the incorporation of 122 verses, and four poems of Baba Farid, in Sikh Holy Book, Guru Granth Sahib, by the fifth Sikh Guru, Arjan Dev in 1604.
The city of Faridkot bears his namesake. According to legend, Farid stopped by the city, then named 'Mokhalpur', and did penance for 40 days, near the fort of King 'Mokhal'. The king was said to be so impressed by his presence that he named the city, after Baba Farid, which today is known as 'Tilla Baba Farid'. The festival 'Baba Sheikh Farid Aagman Purb Mela' is celebrated in September, each year, commemorating his arrival in the city. Ajodhan was also renamed as Farid's 'Pak Pattan', meaning Pure City, which in time became its present name, though some sources suggest, it comes from its another meaning, 'Holy Ferry'.
'Faridia Islamic University', at Sahiwal, Pakistan is named after him, and in July 1998, the Punjab Government in India, established the Baba Farid University of Health Sciences at Faridkot, the city which itself was named after him.
According to a legend, it was his mother, who inspired young Farid towards prayer, by placing Shakar (sugar) under his prayer mat, and when she didn't, Farid found the sugar nevertheless, this episode gave him an unmistakable spiritual fervour and later the name, Ganj-i-Shakar, meaning 'Treasure of Sweetness' (Shakar). Shaikh Shoaib was nephew of Sultan Mahmud Ghaznavi.

His Shrine

His mazar (shrine) is located in Pakpattan. Khawaja Nizamuddin Aulia constructed his tomb. The mazar has two doors, namely Noori darwaza and Bahishti darwaza. Bahishti darwaza opens once a year and during the fair, thousands of people pass through this doorway. The door itself is made of silver, and floral designs are laid in gold sheet. Thousands of devotees come to visit the shrine daily from within the country and from abroad. His urs (death anniversary) is celebrated every year on the 5th, 6th and 7th of Muharram.

SHAJRA-E-NASAB OF HAZARAT PIR BABA R.A

Syed Ali Tirmizi (Almaaroof Pir Baba) (Roza Mubarak at Buner) Son of Syed Qanbar Ali Son of Syed Ahmad Noor Son of Syed Jafer Almaroof Yousaf Noor Son of Syed Muhammad Noor Bakhsh Termezi Son of Syed Ahmad Begham Son of Syed Ahmad Ali Shah Bidaq Son of Syed Ahmad Mushtaq Son of Syed Shah Ayub Abu Turaab Son of Syed Hameed ud Deen Son of Syed Mehmood Son of Syed Ishaq Son of Syed Usman Son of Syed Jafer Son of Syed Umar Son of Syed Muhammad Shah Son of Syed Hasam ud Deen Son of Syed Shah Nasir Khisro Son of Syed Jalal ud Deen Ganj ul Ilam (known as Syed Jalal-e-Bukhari Sahab) Son of Syed Amir Ali Son of Syed Abdul Rahim Son of Syed Mehmood Makki Son of Syed Muhammad Shah Son of Imam Ali Naqi Son of Imam Muhammad Taqi Son of Imam Ali ibne Moosa Raza Son of Imam Moosa Kazim Son of Imam Jafer Saadiq Son of Imam Muhammad Baqir Son of Imam Ali Zain ul Aabideen Son of Imam Hussain A.S Son of Ali ul Murtaza A.S wa Syeda Fatima A.S Son of Abu Talib R.A Son of Baba Syedina Abdul Mutwalib R.A Son of Hazrat Syedina Hashim R.A Son of Hazrat Syedina Baba Abad Manaaf R.A Son of Hazrat Syedina Qusi R.A Son of Hazrat Syedina kalaab R.A Son of Hazrat Syedina Bab Murrah R.A Son of Jarye Zamana Baba-e-Waqt Hazrat Ka Ab R.A (kaaf—Aen — Be) Son of Hazrat Syedina Ghalib R.A Son of Hazrat Syedina Feher R.A (Mubarak Laqab Quresh) Son of Hazrat Syedina Maalik R.A Son of Hazrat Syedina Nazar R.A Son of Hazrat Syedina Kinana R.A Son of Hazrat Syedina Khuzema R.A Son of Hazrat Syedina Mudrika R.A Son of Hazrat Syedina Ilyas R.A Son of Hazrat Syedina Muzar R.A Son of Hazrat Syedina Nazaar R.A Son of Hazrat Syedina Ma Ad R.A (Meem—Aen — Daal) Son of Hazrat Syedina Adnan R.A Son of Hazrat Syedina Uddo R.A (yaa aap ka naam ODAD bhi likkagaya hey) Son of Hazrat Syedina Hameesa-a R.A 0(with Aen) Son of Hazrat Syedina Salamaan R.A Son of Hazrat Syedina Aus R.A (Aen—Wao—Swaad) Son of Hazrat Syedina Naabooz R.A (Laqab Sa alba) (Ce—Aen—laam—Be—Hamza) Son of Hazrat Syedina Qamwaal R.A Son of Hazrat Syedina Ubi R.A Son of Hazrat Syedina Baba Awaam R.A Son of Hazrat Syedina Naashid R.A Son of Hazrat Syedina Baldaas R.A Son of Hazrat Syedina Yadlaaf R.A Son of Hazrat Syedina Taabikh R.A (Laqab Mubarak Eekaan) Son of Hazrat Syedina Jaahim R.A Son of Hazrat Syedina Naahish Son of Hazrat Syedina Baba Maakhi (laqab Mubarak Khaatim un Naar) Son of Hazrat Syedina Aefi R.A (Laqab Mubarak Abu al Jinn) Son of Hazrat Syedina Ubaid (Laqab Mubarak Zulmatwanij) Son of Hazrat Syedina Hazrat ud Duaa R.A Son of Hazrat Syedina Hamdaan (Laqab Mubarak Ismaeel & Zul A Uoj) Son of Hazrat Syedina Yasrabi (Laqab Shareef Tamakh) Son of Hazrat Syedina Makhzan Son of Hazrat Syedina Baba Yalhan (Laqab Mubarak Unood) Son of Hazrat Syedina Al Ro EE (Laqab Mubarak Ada-a) Son of Hazrat Syedina Baba Aezee R.A (Laqab Mubarak Aaqir) Son of Hazrat Syedina Dee Shaan R.A Son of Hazrat Syedina Aesar R.A (Laqab Mubarak Aamir) Son of Hazrat Syedina Iqnaad R.A Son of Hazrat Syedina Eehaam R.A Son of Hazrat Syedina Muqassi R.A Son of Hazrat Syedina Naahis R.A Son of Hazrat Syedina Zaareh R.A (Almaaroof Qameer) Son of Hazrat Syedina Huzoor Sami R.A (Almaaroof Mahshar) Son of Hazrat Syedina Baba Muzaee (Almaroof Har Manar) Son of Hazrat Syedina Auz R.A Son of Hazrat Syedina Baba Uram R.A Son of Hazrat Syedina Hazrat Qaidaar R.A Son of Hazrat Syedina Ismaeel Aleh Salaam (Umar Mubarak 137 saal) { Age 137 Years } Son of Jaddul Anbia Shadeed Muntazir besat-e-Muhammadee, Mu Azzan-e- Haj, Jadd-e-Yaqoob, Memaar-e-kaaba, Khaleel Ullah, Hazrat Syedina Abu Ishaq Sahib Suhf-e-Syedina Ibrahim Aleh Salaam (Umar Mubarak 175 saal) { Age 175 Years } Son of Hazrat Taarekh R.A (Umar Mubarak 205 Saal){ Age 137 Years } Son of Hazrat Syedina Hoor R.A (Umar Mubarak 159 saal) { Age 159 Years } Son of Hazrat Syedina Sarooj R.A (Umar Mubarak 232 saal) { Age 232 Years } Son of Hazrat Syedina Aarghoo R.A (Umar Mubarak Ba husne Ittefaq 239 saal) { Age 239 Years } Son of Hazrat Syedina Aabir R.A (Umar Mubarak 460 saal){ Age 460 Years } Son of Hazrat Syedina Irfikshaad R.A (Umar Mubarak 438 saal) { Age 438 Years } Son of Hazrat Syedina Saam R.A (Umar Mubarak 602 saal) { Age 602 Years } Son of Hazrat Syedina Nooh Aleh Salaam (Umar Mubarak 950 saal) { Age 950 Years } Son of Hazrat Syedina Laamik R.A (Umar Mubarak 777 saal) { Age 777 Years } Son of Hazrat Syedina Matooshayekh (Umar Mubarak 969 saal) { Age 969 Years } Son of Hazrat Syedina Idrees Aleh Salaam (Umar Mubarak 365 Rafaa ila ssamaa) { Age 365 Years } Son of Hazrat Syedina Yaarid R.A (Umar Mubarak 895 saal) { Age 895 Years } Son of Hazrat Syedina Mulhil Eel R.A (Umar Mubarak 895 saal) { Age 895 Years } Son of Hazrat Syedina Qenaan R.A (Umar Mubarak 910 saal) { Age 910 Years } Son of Hazrat Syedina Aanoosh Umar Mubarak 905 saal) { Age 905 Years } Son of Hazrat Syedina Sheesh Aleh Salaam (Umar Mubarak 912 saal) { Age 912 Years } Son of Ahsan-e-Taqweem, Masjood-e-Malaeka, Awwaleen Memaar-e-Kaaba , Safi Ullah, Abu al Bashar, Abu al Anbia Syedina wa Maulana Talmeez ar Rehman, Awwal Nabi HAZRAT BABA AADAM ALEH SALAAM (Umar Mubarak 930 Saal){ Age 930 Years } (Mazaar Mubarak Makka Mukarrama Saudi Arabia) Wa Ummul Bashar, Ummul Anbia, Jannati Rooh, Baaesa Abadi-ye-zameen, Rahat-e-Jaan-e-Aadam, Awaba-e-Awwal SYEDA AMMA HAWWA ALEH AS SALAAM (Umar Mubarak 900 saal) { Age 900 Years } (Mazaar Mubarak Jeddah Shareef Saudi arabia.