شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے بیان کردہ اصول ۔۔۔
اولیاء کی کرامت ، کبھی بھی رسولوں کے معجزات تک نہیں پہنچ سکتی ۔
۔۔۔ کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ جو واضح معجزات نبیوں کی ذات سے وابستہ ہیں ۔۔۔ مثلاً ؛
۔٭ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا آگ میں ڈالے جانے پر بھی ان کا سلامت رہنا ۔۔۔
۔( سورۃ ؛ الانبیاء ، آیت ؛ ٦٩ )۔
۔٭ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مردہ کو زندہ کر دینا ۔۔۔
۔( سورۃ ؛ المائدہ ، آیت ؛ ١١٠ )۔
ایسے معجزات بطور ِ کرامت اولیاء اللہ سے ممکن نہیں ہو سکتے ۔
شیخ الاسلام نے قرآن و حدیث کی روشنی میں اس اصول کی تفصیل اپنی کتاب النبوات میں بیان کی ہے۔
اولیاء اللہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ؛
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُُوْ یَتَّقُوْنَ ٭
۔( ترجمہ ؛ یہ وہ لوگ ہیں جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں ) ۔
۔( سورۃ ؛ یونس ، آیت ؛ ٦٣ )۔
پھر دوسری طرف اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتے ہیں کہ ؛
ہُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی ٭
۔( ترجمہ ؛ وہی متقی کو خوب جانتا ہے )۔
۔( سورۃ ؛ النجم ، آیت ؛ ٣٢ )۔
انسان کا عمل ، اللہ کی بارگاہ میں قبول ہوا بھی یا نہیں ؟ یہ انسان کے علم کے احاطے سے باہر ہے ۔
اور اِس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ متقی کو صرف اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔
جب ہم یہ جان ہی نہیں سکتے کہ سامنے والا کتنا متقی ہے ۔۔۔ تو سامنے والے کو اللہ کے ولی کا درجہ کس بنیاد پر دیا جا سکتا ہے ؟
لہذا حق بات یہ ہے کہ اللہ کے دوست کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے !! واللہ اعلم ۔
__________________
الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُواْ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
جنہیں ، جب کبھی کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔( سورة البقرة : 2 ، آیت : 156 )
الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُواْ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
جنہیں ، جب کبھی کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔( سورة البقرة : 2 ، آیت : 156 )
No comments:
Post a Comment